جرات اور خود اعتمادی پیدا کرنا

جب سے موٹیویشنل اسپیکر بنا ہوں۔ تب سے اب تک پانچ لاکھ سے زیادہ مرد اور عورتیں میری فین تقریہ کی کلاسوں میں تربیت حاصل کر چکے ہیں۔ ان میں سے اکثر افراد نے مجھے خطوط لکھے ہیں کہ انہوں نے کیوں ان کلاسوں میں داخلہ حاصل کیا۔ اور ان کلاسوں سے انہوں نے کیا توقعات وابستہ کر رکھی تھیں۔ ان تمام خطوط میں جو بات مشترک ہے وہ یہ ہے کہ جب مجھے تقریر کے لئے بلایا جاتا ہے تو میں سخت خوفزدہ ہو جاتا ہوں، اپنے خیالات کو جمع نہیں کر سکتا، میری سوچنے کی صلاحیت ختم ہو جاتی ہے اور جو کچھ کہنا چاہتا ہوں .بھول جاتا ہوں ۔

گھبراہٹ:

میں آپ کے سامنے مسٹر گھینٹ کی مثال پیش کرتا ہوں۔ برسوں پہلے اس شخص نے فلاڈلفیا میں میری فین تقریر کی کلاس میں داخلہ لیا۔ یہ ادھیڑ عمر کا آدمی تھا، ایک کارخانے کا مالک تھا اور اُس نے بڑی مصروف زندگی گزاری تھی ۔ ایک دعوت میں جب ہم کھانا کھا رہے تھے تو وہ کہنے لگا ” مجھے کئی مرتبہ جلسوں میں تقریر کے لئے ے لیکن میری کبھی بہت نہیں پڑی ۔ تقریر کا نام سنتے ہی گھبرا جاتا ہوں۔

یہی وجہ ہے کہ میں ہمیشہ تقریر کرنے سے گریہ کرتا ہوں لیکن میں ایک کالج کی مجلس انتظامیہ کا صدر ہوں اور مجھے مجلس انتظامیہ کے اجلاسوں میں کچھ نہ کچھ ضرور کہنا پڑتا ہے ۔ کیا اس عمر میں میں تقریر کرنا سیکھ سکتا ہوں ہے مسٹر گھینٹ” میں نے جواب دیا۔ اگر آپ میری ہدایات پر عمل کریں تو تقریر کرنا ضرور سیکھ سکتے ہیں۔ لیکن اُس شخص کو میری بات پہ کوئی خاص یقین نہیں آیا۔

تقریر کرتے وقت گھبراہٹ:

کافی عرصہ ہوا بروکلین کے ایک ڈاکٹر کو جسے ہم ڈاکٹر کریٹس کہیں گے میں بان کے کھلاڑیوں سے خطاب کرنے کے لئے کہا گیا ۔ ڈاکٹر میں بال کا شوقین تھا اور اسے اس کھیل سے تعلق وسیع معلومات تھیں ۔ وہ تیس سال سے مرضیوں کا علاج کر رہا تھا اور اپنے دائیں بائیں بیٹھے ہوئے مریضوں سے گھنٹوں بات چیت کر سکتا تھا لیکن تقریر کا نام سنتے ہی اُس کے اوسان خطا ہو گئے ۔ لوگ شور مچا رہے تھے کہ ڈاکٹر کریٹس تقریر کیجئے ، ڈاکٹر کریٹس تقریرہ کیجئے لیکن ڈاکٹر کو معلوم تھا کہ اگر وہ تقریر کے لئے کھڑا ہوا تھائی کے لئے چند جملے بھی ادا کرنا مشکل ہو جائے گا۔ چنانچہ ڈاکٹر اٹھا اور پریشانی اور ندامت کی حالت میں چپ چاپ کمرے سے نکل گیا۔ آئندہ اس پریشانی اور ندامت سے بچنے کے لئے ڈاکٹر نے میری بین تقریر کی کلاس میں داخلہ لے لیا ۔ وہ انتہائی مفتی ثابت ہوا.

کیونکہ اس میں تقر یہ کرنے کا فن جب مسٹر گھنٹ نے فین تقریر کی تربیت مکمل کر لی تو اس کے بعد کچھ عرصہ یک میری اُس سے ملاقات نہ ہو سکی ۔ ہماری دوسری ملاقات ایک دعوت کی تقریب میں ہوئی جہاں ہماری پہلی گفتگو کا تذکرہ ہوا۔ اُس نے بتایا کہ اب وہ تقریر کے من میں بہت مہارت حاصل کر چکا ہے۔ مسٹر گھینٹ نے جیب سے ایک نوٹ بک کلاس میں داخلے لیا ۔ وہ نکالی اور ان موضوعات کی ایک فہرست دکھائی جن پر اسے مختلف اجلا ہوں میں سیکھنے کی بچی کی موجو دتھی۔

خوداعتمادی اور مسرت:

تھوڑے دن بعد اس کی گھبراہٹ دور ہونے لگی ارے سےتقریر کرنا تھی مسٹر گھنٹ نے بتایا کہ اُسے کامیابی سے تقریرہ کر کے گہری مسترت حاصل ہوتی ہے ۔ آپ کو حیرت ہوگی کہ لوگ مسٹر گھینٹ کو بڑے بڑے اجتماعات سے خطاب کرنے کی دعوت دیتے تھے بلکہ ایک موقع پر تو برطانیہ کے وزیر اعظم کا تعارف کرانے کے لئے بھی مسٹر گھینٹ کا انتخاب کیا گیا ۔ ہ دہی صاحب تھے جمہ تین سال پہلے تقریر کرنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے تھے ۔ جس تیزی سے مسٹر گھینٹ نے فین تقریر پر عبور حاصل کیا۔ کیا وہ کوئی حیرت انگیز بات ہے ؟ ہرگز نہیں۔ ایسی سینکڑوں مثالیں موجود ہیں ۔اس میں خود اعتمادی بڑھتی گئی۔ دو ہی مہینے بعد وہ اپنی کلاس کا بہترین مقرر بن گیا۔ جلد ہی اُسے مختلف تقریبات میں تقریریں کرنے کی دعوتیں ملنے لگیں۔ اس کی کامیاب تقریروں کی وجہ سے اُس کا حلقہ احباب بھی وسیع ہوتا چلا گیا۔

 

ذرا سوچئے کہ صرف ایک سال پہلے وہی شخص تقریر کرنے کے تصور سے گھرا کہ ایک دعوت سے اٹھ کر چلا گیا تھا کیونکہ تقریہ کے خوف نے اس کے ہوٹوں پر مہر لگا دی تھی ۔ یقین کیجئے کہ اپنے آپ میں جرات اور خود اعتمادی پیدا کرنا اور لوگوں کے سامنے تقریر کرتے ہوئے یا ان سے گفتگو کرتے ہوئے اپنے خیالات میں رکاوٹ نہ آنے دینا اتنا مشکل نہیں جتنا کہ بعض لوگ سمجھتے ہیں۔ ایسا نہیں کہ گفتگوارہ میرا برا حال تھا۔ میری زبان تالو سے چپک گئی تھی اور ایک لفظ بولنا بھی میرےتقریر کی صلاحیت خدا نے صرف چند افراد کو ہی بخشی ہو۔ تقریر بھی ایک کھیل کی طرح ہے۔ اگر آپ سچے دل سے مہارت حاصل کرنا چاہتے ہیں تو آپ ضرور ایسا کرسکتے ہیں۔ جب آپ اپنے کمرے میں بڑے نمبر اور سکون کے ساتھ سوچ سکتے ہیں ۔

 

تو آپ تقریر کرتے ہوئے بھی اسی صبر سکون اور صفائی کے ساتھ سوچ سکتے نہیں بلکہ سچ تو یہ ہے کہ سامعین کے سامنے آپ کی سوچنے کی صلاحیت زیادہ بہتر ہو جاتی چاہیئے ۔ بہت سے کامیاب مقرر آپ کو بتائیں گے کہ سامعین کی موجودگی میں اُن کے سوچنے کی صلاحیت بڑھ جاتی ہے اور ان کا فہمین زیادہ صفائی اور تیزی سے کام کرنے لگتا ہے۔ بہنری وارڈ بیچر کا تو کہنا ہے کہ تقریر کرتے ہوئے بعض ایسےلئے مشکل ہو گیا تھا ۔ ڈر رائیکی نے تسلیم کیا کہ جب اُسے برطانوی دارالعوام میں پہلی مرتبہ تقریر کرنا پڑی تو اس نے سوچا کہ اس سے بہتر تھا کہ میں فوج میں بھرتی ہو جاتا۔ دارالعوام میں ڈرائیلی کی پہلی تقریر تجبری طرح ناکام ہوئی تھی ۔

بعض اوقات ریڈیو پر تقریہ کہتے ہوئے بھی مقررین کو ایک قسم کا خوف لاحق ہو جاتا ہے جسے مائیکروفون کا خوف کہا جاتا ہے ۔ جب چارلی چپلین ریڈیو یہ تقریر کرنے آیا تو وہ برطانیہ کے بڑے بڑے تھیٹروں میں کام کر چکا تھا اور لوگوں کے سامنے بولنا اس کے لئے کوئی نئی بات نہ تھی لیکن اس کے باوجود چارلی چپلین نے ریڈیو پر زبانی بولنے کی بجائے لکھی ہوئی تقریر پڑھی۔ اس دوران اس کی حالت ایسی تھی۔

 

خیالات اور حقائق بھی ذہن میں آنے لگتے ہیں جن کے بارے میں مقرر کو علم نہیں ہوتا ۔ جیسے کوئی شخص طوفان میں سمندر پار کرتے ہوئے ہچکولے کھا رہا ہو۔ بہر حال آپ کو اس بات پر مکمل طور پر یقین کر لینا چاہیے کہ تربیت اور مشق بعض لوگ خواہ کتنی مرتبہ بھی تقریر کیوں نہ کہ چکے ہوں تقریر کی ابتداء میں کے ذریعے آپ لوگوں کے سامنے تقریر کرنے کے خوف سے نجات حاصل کر سکتے ہیں ۔ یہ خیال ذہن میں نہ لائیں کہ آپ کے لئے تقریر کرنا زیادہ مشکل ہے ۔

حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ اپنے دور کے بہترین مقرر ثابت ہوئے ہیں وہ بھی شروع شروع میں ایسی ہی مایوسی کی باتیں سوچتے تھے۔ مشہور ادیب مارک ٹوین کو جب پہلی مرتبہ لیکچر دینا پڑا تو اُسے ایسا محسوس ہوا جیسے کسی نے اس کے منہ میں روئی ٹھونس دی ہو۔ اُس کی نبض اتنی تیز ہو گئی  تھی جیسے وہ دوڑ کے کسی انعامی مقابلے میں حصہ لے رہا ہو ۔ لائیڈ جارج کا کہنا ہے کہ جب میں نے پہلی مرتبہ تقریر کرنے کی کوشش کی تو گھبرائے گھبرائے رہتے ہیں ۔ آہستہ آہستہ وہ اپنی گھبراہٹ پر قابو پالیتے ہیں اور اُن کی تقریر میں روانی آجاتی ہے ، کم وبیش یہی کیفیت براہیم نکن کی بھی ہوتی تھی ۔ وہ تقریر کے شروع میں گھبرایا ہوا ہوتا تھا لیکن تھوڑی دیر بعد پرسکون ہو جاتا اور اس کی اصل تقریر شروع ہوتی ۔ آپ کا تجربہ بھی شاید الیسا ہی ہو۔